اعلی درجے کی تلاش

اس موضوع کے بارے ميں پہلے یہ کہنا ہے کہ : يہ لقب دو اماموں يعنى امام على (ع) اور امام حسين (ع) کے لئے استعمال ہوا ہے – ہم امام حسين (ع) کى زيارت ميں پڑ هتے ہيں : "السلام عليک يا ثاراللہ وبن ثارہ: [1]  سلام ہو آپ پر اے خون خدا اور فرزند خون خدا" –

"ثاراللہ " کے معنى کے بارے ميں دواحتمالات پائے جاتے ہين:

  • خونخواہى : لغت کى کتابوں ميں لفظ " الثار" ، "طلب الدم" يعنى "خونخواہى " کے معنى ميں آيا ہے، "ثاراللہ " يعنى جس کا ولى دم اور خونخواہ، خدا ہے –

قابل غور بات ہے کہ امام حسين (ع) کى خونخواہى کى آواز يعنى " يا لثارات الحسين" توابين اور مختار کے قيام کا نعرہ تها -[2] اس کے علاوہ يہ ان فرشتوں کا نعرہ ہے جو آپ (ع) کى قبر مبارک کے پاس امام زمانہ (عج) کے ظہور تک رہيں گے، [3] اور اس کے علاوہ يہ نعرہ قيام کے وقت امام مہدى (عج) [4] اور آپ ( عج) کے شہادت طلب سا تهيوں کا ہوگا - [5]

لفظ " ثاراللہ " کے معنى بيان کئے گئے، ا نهيں بہت سے اسلامى دانشوروں نے قبول کيا ہے [6]

اس معنى کے مطابق "ثاراللہ" يعنى اے وہ، جس کے خون کا بدلہ خدا سے متعلق ہے اور وہى آپ (ع) کے خون کا بدلہ لے گا، کيونکہ آپ صرف ايک خاندان سے متعلق نہيں ہيں کہ ايک خاندان کا سرپرست آپ (ع) کےخون کا بدلہ لے لے اور صرف ايک قبيلہ سے متعلق نہيں ہيں کہ تيرے خون کا بدلہ قبيلہ کا سردار لے لے، بلکہ آپ (ع) عالم انسانيت اور ہستى سے متعلق ہيں، آپ عالم ہستى اور بارى تعالى کى پاک ذات سے متعلق ہيں، اس بنا پر آپ کے خون کا بدلہ اسے لينا چاہئے، اور اسى طرح آپ (ع) على بن ابيطالب کے بيٹے ہيں، وہ بهى راہ خدا کے شہيد تهے اور ان کے خون کا بدلہ بهى خداوند متعال کو لينا چاہئے-

  • خون خدا : علامہ مجلسی (رح) کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ " الثار" کے معنى خون اور خون خواہى ہیں ، [7] ان کے کلام کى تايئد کرنے والے معنى "لسان العرب" نامى کتاب ميں لفظ "الثار" کے سلسلہ ميں آيا ہے – يہ لغت کى کتاب کہتى ہے : "الثار الطلب بالدم، وقيل: الدم نفسہ" يعنى لفظ " الثار" خون خواہى کے معنى ميں ہے اور کہا گيا ہے کہ خود خون کے معنى ميں بهى استعمال ہوا ہے - [8] پس کہا جاسکتا ہے کہ حسين (ع) خون خدا ہيں، ليکن کيا حقيقت ميں اس معنى کو قبول کيا جاسکتا ہے اور کيا خدا کا جسم ہے کہ جس کا خون ہوگا اور کيا بنيادى طور پر خدا کے بارے ميں ايسا تصور کيا جاسکتا ہے ؟!

جواب ميں کہنا ہے کہ : "يداللہ" وغيرہ جيسے الفاظ، جو اسلامى ثقافت ميں استعمال ہوئے ہيں، ايک کنائى يا مجازى تعبير شمار ہوتے ہيں [9] مثال کے طور پر جب کہا جاتا ہے کہ على (ع) يد اللہ ہيں، تو اس سے مراد يہ نہيں لیا جاتا ہے کہ خدا کا جسم ہے اور انسان کے مانند ہاتھ  رکهتا ہے اور اس کا ہاتهہ حضرت على (ع) ہيں – بلکہ اس سے مراد يہ ہے کہ على (ع) خدا کى قدرت کے مظہر ہيں-

اس بنا پر "ثاراللہ" کے لقب کا امام حسين (ع) پر اطلاق ہونا مندرجہ ذيل احتمالات ميں سے کوئى ايک ہوسکتا ہے:

 1-  "ثاراللہ" پر اضافہ، ايک تشريفى اضافہ ہے، يعنى يہ خون، شريف ترہن ذات يعنى خدا پر اضافہ ہوا ہے، کيونکہ خدا کے لئے زمين پر گرا ہے اور اس لحاظ سے خدا سے تعلق رکهتا ہے، جس طرح جملہ "ہذا ناقۃ اللہ" [10] " عند بيتک المحرم" [11] ميں لفظ "بيت" اللہ اور ضمير مخاطب پر اضافہ ہوا ہے اور يہ اضافہ شرافت حاصل کرنے کے لئے ہے - [12]

2- جو انسان کامل قرب فضائل کے کمال کے مدارج تک پہنچ کر[13] ، "يداللہ" ، "لسان اللہ" اور "ثاراللہ" بن جاتا ہے، يعنى خدا کا ہا تهہ بن جاتا ہے کہ اگر خدا کسى کام کو انجام دينا چاہے، تو اس کے ہا تهہ سے انجام ديتا ہ، خدا کي زبان بن جاتا ہے کہ اگر خدا کوئى کلام کرنا چاہتا ہے، تو اس کى زبان سے کہتا ہے، اور خدا کا خون بن جاتا ہے، کہ اگر خدا اپنے مکتب کو معاشرہ ميں حيات بخشنا چاہتا ہو تو اس کے خون سے استفادہ کرتا ہے- امام على (ع) اور امام حسين (ع) دونوں "ثاراللہ" ہيں، کيونکہ جو خون ان دو اماموں کا زمين پر گرا، وہ دين اسلام کو نئى زندگى بخشنے کا سبب بنا ہے –

بہرحال ہمارى دينى کتابوں ميں "ثاراللہ"، کا لقب امام حسين (ع) کے لئے استعمال ہوا ہے – ہمارا اعتقاد ہے کہ اگر چہ اس کے پہلے معنى بهى صحيح ہيں، ليکن اس کے دوسرے معنى بهى لقب " ثاراللہ" کے صحيح معنى ہوسکتے ہيں اور ان معنى کو پانے والے اہل افراد کو بعض لحاظ سے اولويت ميں قرار دے سکتے ہيں-

اس لحاظ سے، امام حسين (ع) خون خدا ہيں، کيونکہ ان کے خون نے دين اسلام کو ايک نئى حيات بخشى ہے اور خدا کا نام زندہ رہنے کا سبب بنى ہے – حقيقت ميں رفتہ رفتہ خدا کى ياد محو ہورہى تهى اور اس کى عبادت، عادت ميں تبديل ہورہى تهى –

اس لحاظ سےکہا جاتا ہے کہ "اسلام نبى الحدوث و حسينى البقاء" ہے – اور ظاہر ہے کہ انسان کو زندہ رہنے کےلئے خون کى ضرورت ہوتى ہے ، اور رگوں ميں خون کا جارى رہنا زندگى کى علامت ہے اور جب خون رگوں ميں جارى ہونے سے رک جاتا ہے، تو شخص کى موت آجاتى ہے – بالکل اسى طرح اسلام کى رگوں ميں بهى خون کے جارى رہنے کى ضرورت ہوتى ہے اور اسى بنا پر اگر ايک دن يہ خون بدن سے جدا ہوجائے تو اس بدن کى موت يقينى اور قطعى ہوتى ہے اور اس کے بعد باقى رہنے والا صرف ايک بے روح جسم ہوتا ہے -[14]

 


[1]   کليني، محمد بن يعقوب‏، الکافي، ج‏4، ص576. يہ جملہ اول رجب ، 15 رجب، اور شعبان کى زيارتوں کےعلاوہ عرفہ کے دن امام حسين (ع) کى زيارت ميں آيا ہے -

[2]  مجلسي، محمدباقر، بحارالأنوار، ج‏45، ص333؛ کرمی، علی، در سوگ امير آزادى- گوياترين تاريخ كربلا، ص385‏.

[3]  امام حسين (ع) کے لئے چار ہزار فرشتے زمين پر اترے اور ديکہا کہ امام قتل کئے گئے ہيں، اس لئے حضرت (ع) کى قبر پر خاک برسر حالت ميں امام زمانہ (عج) کے ظہور تک موجود رہيں گے اور ان کا نعرہ: «يا لثارات الحسين» ہے‏؛ شیخ صدوق، الأمالي، ص130، المجلس السابع و العشرون؛ مجلسي، محمدباقر، بحارالأنوار، ج‏44، ص286.

[4]  قمی، شیخ عباس، منتهی الآمال، ج1، ص542؛ همچنین امام باقر(ع) فرمود: «وَ الْقَائِمُ مِنَّا إِذَا قَامَ طَلَبَ بِثَأْرِ الْحُسَيْنِ (ع‏)»؛ مجلسي، محمدباقر، بحارالأنوار، ج‏44، ص218.

[5]  مجلسي، محمدباقر، بحارالأنوار، ج52، ص308.

[6]  صاحب تفسیر نمونه کہتے ہيں: "ثار"  کبهى  عرب لغت ميں خون کے معنى ميں نہيں آيا ہے  بلکہ خون بہا کےمعنى ميں آيا ہے (عرب ميں خون "دم" پر اطلاق ہوتا ہے)؛ مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج‏4، ص229.

[7]   «و أنك ثار الله في الأرض» کى شرح ميں کہتے ہيں: «الثأر بالهمز، الدم و طلب الدم أي أنك أهل ثار الله و الذي يطلب الله بدمه من أعدائه أو هو الطالب بدمه و دماء أهل بيته بأمر الله في الرجعة»؛ مجلسي، محمدباقر، بحارالأنوار، ج98، ص151.

[8]  ابن منظور، محمد بن مكرم، لسان العرب، ج4، ص97.

[9]  ملاحظہ ہو: مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج‏4، ص229؛ قرائتى، محسن، تفسير نور، ج‏2، ص443.

[10]  هود، 64.

[11]  ابراهیم، 37.

[12]  «هذِهِ ناقَةُ اللَّهِ» الإضافة إلى الله تشريفية، كإضافة مكة إلى الله يقال: «بيت الله»، و إضافة دم الحسين (ع) إلى الله، يقال: «ثار الله»؛ ملاحظہ ہو: حسينى شيرازى، سيد محمد، تقريب القرآن إلى الأذهان، ج‏2، ص200.

[13]  جو چيز انسان کو خدا کے قريب لاتى ہے، وہ نوافل کے مانند ہے کہ مقربات کے معنى ميں ہے جسے خداوند متعال نے اپنے بندوں پر واجب نہيں کيا ہے، بلکہ وہ قرب الہى حاصل کرنے کے لئے اسے بجا لاتے ہيں-

[14]   مزيد آگاہى کے لئے ملاحظہ ہو:: ترخان، قاسم، نگرشی عرفانی، فلسفی و کلامی به: شخصیت و قیام امام حسین (ع)، ص 91- 104، انتشارات چلچراغ، طبع اول، 1388 ه ش..قابل بيان ہے کہ تمام منابع مرکز تحقيقات کا مپوترى علوم اسلامى، نور سے متعلق ہيں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا