اعلی درجے کی تلاش

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اور ان کے فرزندوں کی زندگی کی تفصیلات بیان کرنے کے لئے کئی جلد کتابیں تالیف کرنے کی ضرورت ہے- حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بارے میں بہت ساری کتابیں تالیف کی گئ ہیں- موسوی سادات کے بارے میں سید حسین ابو سعیدہ موسوی کی تالیف کی گئی تین جلدوں پر مشتمل  کتاب " مشجر الوافی" کا مطالعہ کرنا آپ کے لئے مفید ہے[1]- یہاں پر ہم آپ کے سوال سے مربوط موضوع کے بارے میں ایک خلاصہ بیان کرتے ہِیں:

امام موسی کاظم (ع)  کا اسم مبارک، القاب اور شجرہ نسب:

حضرت۴ کا اسم مبارک،موسی بن جعفربن محمد باقر بن علی (زین العابدین)  بن حسین بن علی بن ابیطالب (ع)  ہے[2]- امام موسی کاظم علیہ السلام، اتوار ۷،صفر سنہ ۱۲۸ ہجری کو مکہ اور مدینہ کے درمیان "ابوا" کے مقام پر پیدا ہوئے ہیں اور مشہور قول کے مطابق آپ (ع) کو سنہ ۱۸۳ھ یا ۱۸۱ یا ۱۸۶ یا ۱۸۸ ہجری میں ہارون رشید کے زندان میں زہر دے کر شہید کیا گیا اور بغداد کے مغرب میں، "مقابر قریش" نامی قبرستان میں سپردخاک کے گئے- البتہ اس وقت اس جگہ کا نام شہر کاظمین ہے-

شیخ مفید فرماتے ہیں: " ماضی میں یہ مقبرہ بنی ہاشم اور قبیلوں کے سرداروں کا قبرستان تھا-"

امام موسی کاظم علیہ السلام کی والدہ حمیدہ اندلسی تھیں- کتاب اعلام الوریٰ میں نقل کیا گیا ہے کہ حضرت کی والدہ گرامی حمیدہ بربریہ یا حمیدہ مصفاہ تھیں- لیکن کتاب مناقب میں حمیدہ مصفاہ بنت صاعد بربری، جس کی کنیت "لو لو" تھی، کو حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی والدہ بتایا گیا ہے[3]-

حضرت کے القاب: عبد صالح،کاظم،صابر اور امین ہیں-

شیخ مفید کہتے ہیں: "ابو ابراھیم،ابوالحسن اور ابو علی، حضرت کی کنیتیں ہیں- بعض نے حضرت کی کنیتیں ، ابوالحسن اول،ابوالحسن ثانی، ابو ابراھیم، ابوعلی اور ابو اسماعیل بیان کی ہیں[4]-

حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کے زمانہ کے معروف ترین شاعر سید حمیری ہیں، جو حضرت (ع) کے پیرووں میں سے تھے[5]-

حضرت موسی بن جعفر(ع) کی امامت:

شیعہ اثنا عشری کے ہاں مشہور ہے کہ ہر امام کو تشخیص دینے اور اسکی امامت کو ثابت کرنے کے طریقوں میں سے ایک، گزشتہ امام کے توسط سے اگلے امام کو پہچنوانا اور اسکے علاوہ ان سوالات اور امتحانات سے گزرنا ہے جو عام انسانوں کی قدرت سے خارج ہوتے ہیں- خوش قسمتی سے حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی امامت کے بارے میں کافی نصوص و روایتیں موجود ہیں جن سے ان کی امامت ثابت ہوتی ہے-

ابن صباغ مالکی کہتے ہیں: "عبدالاعلیٰ،فیض بن مختار سے نقل کرتا ہے کہ میں نے حضرت امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی: میری دستگیری فرما کر مجھے جہنم کی آگ سے نجات دیجئے اور مہربانی کر کے فرمائے کہ آپ کے بعد کون امام ہیں؟ اسی اثنا میں موسی بن جعفر علیہ السلام داخل ہوئے، وہ ابھی نوجوان تھے- امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: یہ (حضرت موسی بن جعفر (ع) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) تمھارے امام ہیں، ان کی اطاعت کرنا[6]-"

اس سلسہ میں شیخ مفید کہتے ہیں: " موسی بن جعفر (ع) ان کے والد گرامی کے بعد امام ہیں اور حضرت امام صادق علیہ السلام کے تمام فرزندوں پر فضیلت رکھتے ہیں، کیونکہ:

۱-ان میں تمام خوبیاں اور فضائل پائے جاتے ہیں-

۲-ان کے بارے میں صحیح اور قابل اعتبار نصوص واضع طور پر نقل کئے گئے ہیں-

۳-ان کے پدر بزرگوار نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ : وہ میرے بعد میرے ولیعہد اور امام ہیں[7]-"

حضرت موسی بن جعفر(ع) کے زمانہ کے خلفاء:

حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی امامت کا زمانہ بنی عباسیوں کی خلافت کے استحکام کے ہمرمان تھا- امام موسی کاظم علیہ السلام کو اس وقت امامت ملی، جب ظالم اور جابر ترین حکام، حکومت کی گدّی پر تھے- ان کی حکومت مستحکم ہو چکی تھی داخلی طور پر ملک میں امن و امان برقرار تھا اور کسی قسم کی مخالفت اور کشمکش کا وجود نہیں تھا- یہ استحکام اور امن و امان حکام کے لئے اپنے دشمنوں پر تسلط پیدا کرنے کا سبب بنا اور انہوں نے آسانی کے ساتھ اپنے مخالفوں پر کنٹرول حاصل کیا اور ان کی حرکات و سکنات کو تحت نظر رکھا-

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زمانہ کے ظالم و جابر عباسی سلاطین و حکام حسب ذیل تھے:

۱-منصور دوانقی: وہ اپنے بھائی ابو عباس سفاح کے بعد عباسی حکومت کا دوسرا حاکم تھا- وہ بخل اور حسد میں مشہور تھا اور اسی وجہ سے اسے دوانقی کا لقب دیا گیا تھا- خیانت،خباثت،وعدہ خلافی اور بے وفائی اس کی دوسری واضح خصوصیات تھیں-

۲-مہدی عباسی:  بنی عباسی حکومت کے اس خلیفہ کی مشہور ترین خصوصیات لہو لعب اور فسق و فجور کی طرف حد سے زیادہ رحجان تھا- اس قسم کے مسائل کی طرف اسکی شدید دلچسپی کے نتیجہ میں اس کا بیٹا ابراھیم بغداد کے گائک کلاکاروں کا رئیس بنا اور اس کی بیٹی علیّہ بغداد کی مشہور ملکہ ترنم اور رقاصہ بنی-

مہدی عباسی کی اس قسم کی اخلاقی برائیاں اس قدر مشہور تھیں کہ معروف شاعر عرب دعبل خزاعی نے اپنے ایک شعر میں عباسیوں اور علویوں کے درمیان یوں موازنہ کیا ہے:

علیّہ تم لوگوں میں سے تھی یا بنی ہاشم سے؟ گانا بجانے والوں کا سردار ابراھیم تم لوگوں میں سے تھا یا ان میں سے[8]؟

۳-ہادی عباسی: وہ ۲۵ سال کی عمر میں حاکم بن گیا جبکہ وہ اہل بیت علیہم السلام کا شدید مخالف اور دشمن تھا اور ایک شر پسند حاکم تھا- وہ ایک مغرور،متکبر، بے تجربہ اور جوان حاکم تھا- اس کی حکومت کا دور اہل بیت (ع) اور شیعوں کے لئے انتہائی سخت دور تھا-

مشہور تاریخ دان،مسعودی اپنی کتاب "مروج الزہب" میں ہادی عباسی کے بارے میں کہتا ہے: ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سنگ دل،بداخلاق اور بدمزاج تھا- ہادی عباسی کے زمانے میں بنی ہاشم اور علویوں کی قیادت میں تحریکیں اور بغاوتیں شروع ہوئیں- حسین بن علی کی رہبری میں واقعہ "فخ" اس زمانہ کی مشہور بغاوتوں میں سے ایک ہے- اس تحریک کو امام موسی کاظم علیہ السلام کی تائید حاصل تھی- امام ۴ نے اس تحریک کے قائد (حسین بن علی) کو شہادت کی بشارت دی تھی اور انہیں اپنی قوت بڑھانے اور مقاومت و صبر کی نصیحت کی تھی-

امام نے ان (حسین بن علی) سے مخاطب ہو کر فرمایا: " تم قتل کئے جاوَ گے، اچھی طرح سے لڑنا، تمہارے مقابلے میں قرار پائی فوج اور قوم' فاسق ہیں۔ ۔ ۔" واضح ہے کہ امام۴ کی ان کی تحریک کے بارے میں یہ پالیسی، اس کے جائز ہونے کی تائید ہے-

۴-ہارون رشید: وہ ذخیرہ اندوزی،فضول خرچی،حرم سرا رکھنے اور گانا گانے والی عورتوں اور رقاصوں کی طرف رحجان رکھنے میں مشہور تھا- وہ ائمہ اطہار۴ اور سادات بنی ہاشم سے سخت دشمنی رکھتا تھا اور انہیں نابود کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا تھا- حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کو بار بار زندان میں ڈالنا اور آخر کار سندی بن شاھک کے ہاتھوں انہیں زہر دلا کر شہید کرانا اسکی دشمنی کا ایک نمونہ ہے[9]-

ہارون رشید کے مقابل میں امام۴ کی پالیسی:

ہارون رشید زور زبردستی،ظلم و جبر، سنگدلی،دشمنی، خاص کر علویوں کے ساتھ دشمنی برتنے میں مشہور تھا، لیکن اس کے باوجاد ہم تاریخ میں پاتے ہیں کہ امام موسی کاظم علیہ السلام ہارون رشید کے لئے کسی قسم کی اہمیت کے قائل نہیں تھے اور اس سے کسی صورت میں نہیں ڈرتے تھے اور ہارون کے سامنے انتہائی عزت و شجاعت کا مظاہرہ کرتے تھے اور اپنا فریضہ نبھانےمیں کسی  قسم کی پسپائی اور کمزوری نہیں دکھاتے تھے- اس حقیقت کی تاریخ گواہی دیتی ہے- یہاں پر ہم اس سلسلہ میں ہارون رشید کے ساتھ امام۴ کی مڑبھیڑ کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

ہارون رشید کا پیغمبر( ص) سے رشتہ جوڑنا:

خطیب بغدادی اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں: " ہارون رشید اپنے سفر حج کے دوران زیارت کے لئے قبر رسول(ص)  پر حاضر ہوا، جبکہ وہاں پر قریش جمع تھے- امام موسی کاظم۴ بھی وہاں پر موجود تھے- جب ہارون رسول اللہ (ص)  کی قبر کے نزدیک پہنچا، تو اس نے کہا: سلام ہو آپ پر اے رسول خدا اور میرے چچازاد بھائی۔

اس کا "چچازاد بھائی" کہنا اس لئے تھا تاکہ اس رشتہ کا اظہار کر کے دوسروں کو فخر دکھائے- اسی دوران موسی بن جعفر۴ آگے بڑھے اور رسول خدا (ص) سے خطاب کر کے فرمایا: " سلام ہو آپ پر میرے باپ-" یہ جملہ سن کر ہارون رشید کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور کہا: اے ابوالحسن حقیقی اور واقعی فخرو مباہات یہی ہے-[10]"

۲-امام۴ کے توسط سے "فدک" کی حدبندی

زمخشری کہتے ہیں: " ہارون رشید نے امام موسی بن جعفر۴ سے عرض کی: اے ابوالحسن: آپ فدک کی سرحد معین فرمائیے تاکہ ہم اسے آپ کو واپس لوٹا دیں- حضرت۴ نے اس کام سے انکار کیا، یہاں تک ہارون نے اصرار کیا، تو امام۴ نے فرمایا: "اگر میں اسکی حقیقی سرحدیں مشخص کروں تو تم اسے واپس نہیں کرو گے: ہارون نے کہا: اس کی حدود کہاں تک ہیں؟ حقیقت اور سنجیدگی کے ساتھ اس کو مشخص کیجئے- لہٰزا امام۴ نے فرمایا: اس کی پہلی سرحد عدن تک ہے- یہ سن کر ہارون کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور اس نے کہا: اپنے بیان کو جاری رکھئے- امام۴ نے فرمایا: اس کی دوسری سرحد سمرقند ہے- یہ سن کر ہارون کا چہرہ تاریک ہو گیا- امام۴ نے فرمایا: اس کی تیسری سرحد افریقہ ہے، یہ سن کر ہارون کا رنگ سیاہ ہو گیا- اس نے کہا جاری رکھئے- امام۴ نے فرمایا اس کی چوتھی سرحد خزر اور ارمنستان تک پھیلی ہوئی ہے- یہاں پر ہارون نے کہا: آئیے اور میری جگہ پر بیٹھئے: اس طرح تو ہمارے لئے کوئی چیز باقی نہیں رہتی ہے- امام۴ نے فرمایا: میں نے تو تم سے کہا تھا کہ اگر "فدک" کی سرحدیں معین کروں گا تو تم اسے ہمیں واپس نہیں لوٹا دو گے[11]- اسی بنا پر ہارون نے امام۴ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا-      

رسول(ص) سے رشتہ کا ثبوت:

نقل کیا گیا ہے کہ ایک دن امام موسی کاظم علیہ السلام سے پوچھا گیا: آپ کیسے کہتے ہیں کہ آپ رسول خدا(ص) کے فرزند ہیں ، جبکہ آپ حقیقت میں علی۴ کے فرزند ہیں؟ بیشک مرد باپ کی طرف سے یا دادا کی طرف سے منسوب ہوتا ہے نہ ماں کی طرف سے-

امام۴ نے جواب میں قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی: " اور ہم نے ابراھیم۴ کو اسحاق و یعقوب دئے  اور سب کو ہدایت بھی دی اور اس کے پہلے نوح۴ کو ہدایت دی اور پھر ابراھیم۴ کی اولاد میں داود۴ ، سلیمان۴، ایوب۴، یوسف۴، موسیٰ۴ اور ہارون۴ قرار دئے اور ہم اس طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں- اور ذکریا۴،عیسیٰ۴ اور الیاس۴ کو بھی رکھا جو سب کے سب نیک کرداروں میں تھے[12]-" جبکہ عیسیٰ۴ کا کوئی باپ نہیں تھا- بیشک وہ ماں کی طرف سے انبیاء کی طرف منسوب ہوئے ہیں- اسی طرح ہم بھی اپنی ماں حضرت فاطمہ زہراء(س)  کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) کی اولاد شمار ہوتے ہیں-

اس کے علاوہ خداوند متعال نے فرمایا ہے: پیغمبر! علم آنے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہدیجئے کہ آو ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بُلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں[13]-"

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مباہلہ کے دوران علی۴،فاطمہ۴ اور حسن۴ و حسین۴ کے علاوہ کسی کو دعوت نہیں دی ہے، لہٰزہ ثابت ہوتا ہے کہ حسنین۴ پیغمبر(ص) کے فرزند ہیں[14]-

امام موسی بن جعفر۴ کا علم و اخلاق

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے مختلف علوم اور اخلاقی فضائل کے بارے میں وسیع علم رکھنے کے سلسلہ میں متعد روایتیں نقل ہوئی ہیں- یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت۴ مختلف علوم اور کمال و فضائل کے مالک نہ ہوں جبکہ آپ۴ نے نبی (ص) کے گھر، معدن رسالت اور ملائکہ کی آمدورفت کی جگہ پر تربیت پائی ہو-

اس سلسلہ میں کافی روایتیں نقل کی گئی ہیں، جن میں سے ہم یہاں پر صرف تین روایتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

۱-ابو حنیفہ کہتے ہیں: " میں امام صادق۴ کے زمانہ میں حج پر چلا گیا تھا، جب میں مدینہ میں داخل ہوا، امام صادق۴ کے گھر گیا- میں حضرت۴ کے گھر کے دروازہ پر کھڑا رہا تاکہ حضرت۴ مجھے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دیدیں، اس وقت ایک چھوٹا بچہ گھر سے باہر نکلا، میں نے اس بچے سے پوچھا کہ بیت الخلاء کہاں ہے؟ اس نے جواب میں کہا: صبر کیجئے، اس کے  بعد دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور کہا: " ندی کے کنارے، میوہ دار درخت کے نیچے، مسجد کے صحن میں اور راستہ پر پیشاب اور قضائے حاجت کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے- دیوار کے پیچھے جائیے اور قبلہ کی طرف رخ اور پشت کر کے بیٹھنے سے پرہیز کرنا- ۔ ۔ ۔"

ابو حنیفہ کہتے ہیں : " میں اس بچے سے یہ کلام سن کر حیرت میں پڑ گیا- میں نے اس بچہ سے پوچھا: تیرا نام کیا ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ میں موسی بن جعفر ہوں- میں نے ان سے پوچھا: اے جوان ؛ گناہ و معصیت کیا ہے؟

انہوں نے جواب میں کہا: " گناہ اور معصیت کے لئے تین حالتیں قابل تصّور ہیں:

۱-یہ کہ گناہ خدا کی طرف سے ہو، نہ بندہ کی طرف سے- اس صورت میں سزاوار نہیں ہے کہ خداوند متعال اپنے بندہ کو اس چیز کے لئے عزاب کرے

جس کا وہ مرتکب نہیں ہوا ہے-

۲-یہ کہ گناہ خدا اور بندہ کی طرف سے مشترکاً انجام پائے- اس صورت میں بھی سزاوار نہیں ہے کہ قوی تر شریک کمزور شریک پر ظلم کرے-

۳۔ یہ کہ گناہ بندہ کی طرف سے ہو، اور یہ صحیح ہے- اس صورت میں اگر خداوند متعال اپنے بندہ کو بخش دے، تو اس کا جود و کرم ہے اور اگر اسے سزا دے تو وہ بندہ کے گناہ اور نافرمانی کی وجہ سے ہے-

ابو حنیفہ کہتے ہیں: " اس بچہ (موسی بن جعفر) کی زبانی یہ کلام سننے کے بعد میں نے اپنا جواب پا لیا اور امام جعفر صادق۴ سے ملاقات کرنے سے منصرف ہو گیا- 

ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب  " مناقب " میں حدیث کے آخری حصہ کو یوں نقل کیا ہے: "جب میں نے ان (موسی بن جعفر) سے یہ کلام سنا تو میرے دل میں ان کی عظمت بڑھ گئ اور مجھے اطمینان حاصل ہوا اور میں نے اس آیت کی تلاوت کی: " ذریۃ بعضھا من بعض[15]"

علما نے مختلف علوم و فنون کے بارے میں ان سے متعد روایتیں نقل کی ہیں کہ ہماری دینی  کتابیں ان علوم سے بھری پڑی ہیں[16]-

۲-ابوالفرج اصفہانی کہتے ہیں: "یحییٰ بن حسن نے میرے لئے نقل کیا کہ: موسی بن جعفر۴ کا طریقہ کار یہ تھا کہ اگر انھیں یہ خبر ملتی کہ کوئی شخص ان کے ساتھ اچھا نہیں ہے اور ان کے  پیچھے امام کے حق میں برا بھلا کہتا ہے تو، آپ اس شخص کے لئے دینار سے بھری ایک تھیلی بھیجتے تھے جس میں دو سو سے تین سو تک دینار ہوتے تھے- حضرت۴ کا یہ کام ضرب المثل بن گیا تھا-"

ابو الفرج اصفہانی مزید کہتے ہیں: " دوسرے خلیفہ کے نواسوں میں ایک شخص موسی بن جعفر۴ کو دیکھتے ہی حضرت علی۴ کے نام دشنام دیتا تھا اور موسی بن جعفر۴ کے ساتھ برا سلوک کرتا تھا- بعض شیعوں نے حضرت۴ سے کہا کہ انہیں اجازت دیں تاکہ اس شخص کو قتل کر ڈالیں، لیکن امام۴ نے فرمایا: نہیں- ایک دن حضرت۴ مرکب پر سوار تھے اور اس شخص کے کھیت میں داخل ہوئے، اس شخص نے پکارتے ہوئے کہا کہ: آپ نے ہماری زراعت اور فصل کو نابود کر کے رکھ دیا ہے- حضرت۴ اس کی باتوں کی طرف کوئی توجہ نہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور یہاں تک کہ اس شخص کے نزدیک پہنچے، مرکب سے نیچے اترے، اس کے پاس بیٹھ گئے اور اس کے ساتھ  گفتگو اور شوخی مزاق کرتے ہوئے کہا: آپ کی فصل کا خسارہ اور معاوضہ کتنا ہے؟ اس نے جواب میں کہا: سو درہم- امام۴ نے فرمایا: اس کا منافع کتنا ہے؟ اس نے کہا مجھے کچھ معلوم نہیں ہے- حضرت۴ نے فرمایا: میں نے پوچھا کہ کتنا اندازہ لگا سکتے ہو؟ اس نے کہا: سو درہم- امام۴ نے تین سو درہم اسے دیدئے- اس کے بعد وہ شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور حضرت۴ کے سر مبارک کا بوسہ لیا- اس کے بعد جب بھی امام۴ مسجد میں داخل ہوتے تھے، وہ شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر حضرت۴ کو سلام کرتا تھا اور کہتا تھا: اللہ اعلم حیث یعجل رسالۃ-( یعنی خداوند متعال بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کسے سونپے) اور حضرت۴ کا احترام و تعظیم کرتا تھا- جو شیعہ اس شخص کو قتل کرنا چاہتے تھے، امام۴ نے ان کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: ان دو کاموں میں سے کونسا کام بہتر تھا، جو کام تم لوگ چا ہتے تھے یا جسے میں نے انجام دیا[17]؟!

۳۔ مستحب عبادتیں انجام دینے اور نماز شب بجا لانے میں امام موسی بن جعفر علیہ السلام کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ اپنی نافلہ شب کو صبح کی نماز سے متصل کرتے تھے- فجر کی نماز کے بعد سورج چڑھنے تک تعقیبات، سجدہ و دعا میں مشغول رہتے تھے- سورج چڑھتے وقت حضرت۴ اکثر اس دعا کو پڑھتے تھے: "اللّھم انی اسالک الراحتہ عند الموت والعفو عندالحساب-" آپ۴ کی ایک دعا یہ تھی "عظم الزنب من عبدک فلیحسن العفو من عندک"

خوف خدا میں اس قدر روتے تھے کہ آپ۴ کا ریش مبارک تر ہوتا تھا-

امام موسی بن جعفر۴ صلہ رحم کو انجام دینے میں ممتاز تھے- رات کے اندھیرے میں مدینہ کے فقراء اور محتاجوں کے پاس جاتے تھے اور ان کے لئے پیسے، روٹی اور خرما لے جاتے تھے، اور لوگوں کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ یہ پیسے اور کھانا موسی بن جعفر۴ کی طرف سے ملتا ہے[18]-

امام موسی کاظم۴ کے فرزند اور نواسے:

جیسا کہ ہم نے اس تحریر کی ابتداء میں بیان کیا کہ امام موسی بن جعفر علیہ السلام اور ان کے فرزندوں کے بارے میں کئ جلدوں پر مشتمل کتاب تالیف کرنے کی ضرورت ہے، لیکن یہاں پر ہم صرف ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کے نام بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے علاوہ معلومات حاصل کرنے کے لئے انساب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں-

کتاب "مشجرالوافی" کے مولف، اس سلسلہ میں تمام اقوال اور ان کے بارے میں تحقیق و تجزیہ پیش کرنے کے بعد یوں کہتے ہیں:

الف: امام موسی بن جعفر۴ کے بیٹوں کے نام:

امام موسی کاظم علیہ السلام کے ۲۳ بیٹے تھز[19]- پہلے ہم ان کے نام بیان کریں گے اور اس کے بعد یہ بیان کریں گے کہ ان میں سے کن بیٹوں کی نسل آگے بڑھی ہے-

ان کے نام حسب ذیل ہیں:

ابراھیم اصغر مرتضیٰ وہ "مجاب" کے نام سے بھی مشہور ہیں، محمد عابد، عبداللہ،عباس، اسماعیل، جعفر خواری (ابن شرقم اپنے تحفہ میں کہتے ہیں: امام کا جعفر اکبر نام سے ایک بیٹا تھا) ، اسحاق، حمزہ، عبد الرحمٰن، عقیل، قاسم، یحیٰی، داوود، سلیمان ، احمد، فضل، حسن، حسین، زید نار، عبیداللہ، ابراھیم اکبر، ہارون اور عمر (ابن شرقم کی کتاب " تحفہ" میں نقل کے مطابق)

امام کی بیٹیاں:

امام موسی بن جعفر۴ کی بیٹیوں کے نام حسب ذیل ہیں:

فاطمہ کبریٰ، فاطمہ صغریٰ، رقیہ، حکیمہ، ام ابیہا، رقیہ صغریٰ، کلثوم، ام جعفر، لبابہ، زینب، خدیجہ، علیہ، آمنہ، حسنہ، بربہہ، ام سلمہ، میمونہ، ام کلثوم-

بعض لوگوں نے مزید کئی ناموں کا اضافہ کیا ہے[20]، لیکن ہم خلاصہ کے پیش نظر ان کو بیان کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں-

 


[1] المشجر الوافي،سيد حسين ابو سعيدة الموسوي، دار المحجة البيضاء.

[2] وفي رحاب ائمة اهل البيت (ع) سيد محسن امين، ص 80.

[3] ایضاً.

[4] ملاخطہ ہو: ارشاد، شيخ مفيد؛ مناقب، ابن شهر آشوب؛ مطالب السؤول، ابن طلحة.

[5] ایضاً

[6] الفصول المهمّة، ص 231.

[7] ملاخطہ ہو: كافي، ج 1، ص 307 - 311؛ اثبات الهداة، ص 3 ، ص 156 – 170، وقد نقل  الاخير ما يناهز  60 حديثا على امامته.

[8] ديوان دعبل خزاعي

[9] ملاخطہ ہو: تاريخ الخلفاء، سيوطي؛ مروج الذهب، مسعودي؛ ارشاد، شيخ مفيد

[10] وفيات الأعيان، ج 5، ص 9

[11] ربيع الأبرار، ج 1، ص 315.

[12] انعام، 84.

[13] آل عمران، 61.

[14] الفصول المهمّة، ص 238؛ آيات أنعام، 84؛ آل عمران، 61.

[15] تحف العقول، ص 303، مناقب، ابن شهر آشوب، ج 4، ص 314.

[16] مقاتل الطالبيين، ص 499 - 500؛ تاريخ بغداد، ص 28

[17] مفيد، ارشاد، ص 296

[18] ملاخطہ ہو: ارشاد، ص 298؛ كافي، ج1، ص 13 - 20؛ تحف العقول، ص 283.

[19] من غیرعلي بن موسى الامام الرضا (ع).

[20] ملاخطہ ہو: المشجر الوافي،  ج 1، ص 65- 66.

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا